تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
29 جولائی
غزل
خواجہ حیدر علی آتش
حسرتِ جلوہِ دیدار لئے پھرتی ہے
پیشِ روزن پسِ دیوار لئے پھرتی ہے
مالِ مفلس مجھے سمجھا ہے جنوں نے شاید
وحشتِ دل سرِ بازار لئے پھرتی ہے
کعبہ و دیر میں وہ خانہ بر انداز کہاں
گردشِ کافر و دیں دار لئے پھرتی ہے
حسرتِ جلوہِ دیدار لئے پھرتی ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
3
1463
29 جولائی
غزل
خواجہ حیدر علی آتش
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چَمَن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
دہَن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
2
4874
معلومات